Posts

کیا کبھی دیکھا ہے

کیا کبھی دیکھا ہے شاعر: افتخار بخاری کیا کبھی دیکھا ہے مقدس دوپہروں میں بوڑھی عورتوں کو قطاروں میں محافظوں کو تلاشی دے کر مین گیٹ پار کر تے ہوئے جہاں نوازے ہوئے تکبر سخاوت کرتے ہیں تھوڑا سا آٹا، تھوڑا سا گھی سردی سے کپکپاتے بچے سویر کے کاٹتے کہرےمیں قیمتی گاڑیاں دھوتے ہوئے، صاف ستھرے بچوں کے رنگین بھاری بستے، ان میں رکھتے ہوئے کیا ننھی نوکرانیاں دیکھی ہیں چند ہزار میں خریدی ہوئیں، بدمعاش بڈھوں کو ان کی چٹکیاں لیتے ہوئے جب ان کے خیال میں وہ دیکھے نہیں جا رہےہوتے کیا اجتماعی شادیاں دیکھی ہیں جب وہ غلاموں کی افزائش نسل کا گھنائونا کھیل کھیلتے ھیں کیا چلچلاتی دھوپ میں کھڑی بیمار مزدور عورتیں دیکھی ہیں ثروت مندوں کے دروازوں پر کھلنے کے انتظار میں اگر نہیں دیکھا تو معاف کیجیے گا آپ ایک غریب آدمی ہیں غریبوں کے محلے میں رہنے والے

ورکنگ لیڈی

ورکنگ لیڈی شاعرہ: ثروت زہرہ نہ چُوڑی کی کَھن کَھن ، نہ پائل کی چَھن چَھن نہ گجرا، نہ منہدی ، نہ سُرمہ، نہ اُبٹن میں خود کو نہ جانے کہاں بُھول آئی جو ڈیوڑھی سے نکلی تو بچے کی چیخ...

پھر چائے میں بسکٹ کی طرح بھوکی سی یہ شام ...... کھا جائے گی سورج کو سمندر میں ڈبا کر

Image
یہ دھوپ گری ہے جو مرے لان میں آ کر لے جائے گی جلدی ہی اسے شام اٹھا کر سینے میں چھپا شام کی آنکھوں سے بچا کر اک لہر کو ہم لائے سمندر سے اٹھا کر ہاں وقت سے پہلے ہی اڑا دے گی اسے صبح رکھی نہ گئی چاند سے گر شب یہ دبا کر اک صبح بھلی سی مرے نزدیک سے گزری میں بیٹھا رہا ہجر کی اک رات بچھا کر پھر صبح سے ہی آج الم دیکھ رہے ہیں یادوں کی کوئی فلم مرے دل میں چلا کر پھر چائے میں بسکٹ کی طرح بھوکی سی یہ شام کھا جائے گی سورج کو سمندر میں ڈبا کر شاعر: سوپنل تیواری

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اُس سے لپٹ کے رو لینا شاعر: بشیر بدر

ہمیں خبر ہے زنِ فاحشہ ہے یہ دنیا

ہمیں خبر ہے زنِ فاحشہ ہے یہ دنیا سو ہم بھی ساتھ اسے بے نکاح رکھتے ہیں شاعر: صہبا لکھنوی

دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ

دلِ بے خبر ذرا حوصلہ کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں، جہاں ہر مکین ہو مطمئن کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے، جسے خوفِ آمدِ شب نہیں یہ جو گردبادِ زمان ہے، یہ ازل سے ہے کوئی اب نہیں دلِ بے خبر ذرا حوصلہ یہ جو خار ہیں تِرے پاؤں میں، یہ جو زخم ہیں تِرے ہاتھ میں یہ جو خواب پھرتے ہیں دَر بہ دَر، یہ جو بات اُلجھی ہے بات میں یہ جو لوگ بیٹھے ہیں جا بجا، کسی اَن بَنے سے دیار میں سبھی ایک جیسے ہیں سر گراں، غَمِ زندگی کے فشار میں یہ سراب، یونہی سدا سے ہیں اِسی ریگزارِ حیات میں یہ جو رات ہے تِرے چار سُو، نہیں صرف تیری ہی گھات میں دلِ بے خبر ذرا حوصلہ تِرے سامنے وہ کتاب ہے، جو بِکھر گئی ہے وَرَق وَرَق ہَمَیں اپنے حصّے کے وقت میں، اِسے جَوڑنا ہے سَبَق سَبَق ہیں عبارتیں ذرا مُختلف، مگر ایک اصلِ سوال ہے جو سمجھ سکو ،تو یہ زندگی! کسی ہفت خواں کی مثال ہے دلِ بے خبر ذرا حوصلہ نہیں مُستقِل کوئی مرحلہ کیا عجب، کہ کل کو یقیں بنے یہ جو مُضطرب سا خیال ہے کسی روشنی میں ہو مُنقَلِب، کسی سرخوشی کا نَقِیب ہو یہ جو شب نُما سی ہے بے دِلی، یہ جو زرد رُو سا مَلال ہے ...

تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو؟

تم اصل ہو یا خواب ہو، تم کون ہو؟ تم مہر ہو، مہتاب ہو، تم کون ہو؟ جو آنکھ بھی دیکھے تمہیں سر سبز ہو تم اس قدر شاداب ہو، تم کون ہو؟ تم لب بہ لب، تم دل بہ دل، تم جاں بہ جاں اک نشّہ ہو، اک خواب ہو، تم کون ہو؟ جو دستِ رحمت نے مرے دل پر لکھا تم عشق کا وہ باب ہو، تم کون ہو؟ میں ہر گھڑی اک پیاس کا صحرا نیا تم تازہ تر اک آب ہو، تم کون ہو؟ میں کون ہوں وہ جس سے ملنے کے لیے تم اس قدر بے تاب ہو، تم کون ہو؟ میں تو ابھی برسا نہیں دو بوند بھی تم روح تک سیراب ہو، تم کون ہو؟ یہ موسِمِ کمیابیِ گُل کل بھی تھا تم آج بھی نایاب ہو، تم کون ہو؟ چھُوتے ہو دل کچھ اس طرح جیسے صدا اک ساز پر مضراب ہو، تم کون ہو؟ دل کی خبر دنیا کو ہے تم کو نہیں کیسے مرے احباب ہو، تم کون ہو؟ وہ گھر ہوں میں جس کے نہیں دیوار و در اس گھر کا تم اسباب ہو، تم کون ہو؟ اے چاہنے والے مجھے اس عہد میں میرا بہت آداب ہو، تم کون ہو؟ شاعر: عبید اللہ علیم