Posts

Showing posts from June, 2018

پھر چائے میں بسکٹ کی طرح بھوکی سی یہ شام ...... کھا جائے گی سورج کو سمندر میں ڈبا کر

Image
یہ دھوپ گری ہے جو مرے لان میں آ کر لے جائے گی جلدی ہی اسے شام اٹھا کر سینے میں چھپا شام کی آنکھوں سے بچا کر اک لہر کو ہم لائے سمندر سے اٹھا کر ہاں وقت سے پہلے ہی اڑا دے گی اسے صبح رکھی نہ گئی چاند سے گر شب یہ دبا کر اک صبح بھلی سی مرے نزدیک سے گزری میں بیٹھا رہا ہجر کی اک رات بچھا کر پھر صبح سے ہی آج الم دیکھ رہے ہیں یادوں کی کوئی فلم مرے دل میں چلا کر پھر چائے میں بسکٹ کی طرح بھوکی سی یہ شام کھا جائے گی سورج کو سمندر میں ڈبا کر شاعر: سوپنل تیواری

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا

ریت بھری ہے ان آنکھوں میں تم اشکوں سے دھو لینا کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اُس سے لپٹ کے رو لینا شاعر: بشیر بدر

ہمیں خبر ہے زنِ فاحشہ ہے یہ دنیا

ہمیں خبر ہے زنِ فاحشہ ہے یہ دنیا سو ہم بھی ساتھ اسے بے نکاح رکھتے ہیں شاعر: صہبا لکھنوی

دلِ بے خبر، ذرا حوصلہ

دلِ بے خبر ذرا حوصلہ کوئی ایسا گھر بھی ہے شہر میں، جہاں ہر مکین ہو مطمئن کوئی ایسا دن بھی کہیں پہ ہے، جسے خوفِ آمدِ شب نہیں یہ جو گردبادِ زمان ہے، یہ ازل سے ہے کوئی اب نہیں دلِ بے خبر ذرا حوصلہ یہ جو خار ہیں تِرے پاؤں میں، یہ جو زخم ہیں تِرے ہاتھ میں یہ جو خواب پھرتے ہیں دَر بہ دَر، یہ جو بات اُلجھی ہے بات میں یہ جو لوگ بیٹھے ہیں جا بجا، کسی اَن بَنے سے دیار میں سبھی ایک جیسے ہیں سر گراں، غَمِ زندگی کے فشار میں یہ سراب، یونہی سدا سے ہیں اِسی ریگزارِ حیات میں یہ جو رات ہے تِرے چار سُو، نہیں صرف تیری ہی گھات میں دلِ بے خبر ذرا حوصلہ تِرے سامنے وہ کتاب ہے، جو بِکھر گئی ہے وَرَق وَرَق ہَمَیں اپنے حصّے کے وقت میں، اِسے جَوڑنا ہے سَبَق سَبَق ہیں عبارتیں ذرا مُختلف، مگر ایک اصلِ سوال ہے جو سمجھ سکو ،تو یہ زندگی! کسی ہفت خواں کی مثال ہے دلِ بے خبر ذرا حوصلہ نہیں مُستقِل کوئی مرحلہ کیا عجب، کہ کل کو یقیں بنے یہ جو مُضطرب سا خیال ہے کسی روشنی میں ہو مُنقَلِب، کسی سرخوشی کا نَقِیب ہو یہ جو شب نُما سی ہے بے دِلی، یہ جو زرد رُو سا مَلال ہے ...