اچھا سا کوئی سپنا دیکھو اور مجھے دیکھو جاگو تو آئینہ دیکھو اور مجھے دیکھو سوچو یہ خاموش مسافر کیوں افسردہ ہے جب بھی تم دروازہ کھولو اور مجھے دیکھو دو ہی چیزیں اس دھرتی پر دیکھنے والی ہیں مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو شاعر: ثروت حسین
تم جس خواب میں آنکھیں کھولو اس کا روپ امر تم جس رنگ کے کپڑے پہنو، وہ موسم کا رنگ تم جس پھول کو ہنس کر دیکھو، کبھی نہ وہ مرجھائے تم جس حرف پہ انگلی رکھ دو، وہ روشن ہو جائے شاعر: امجد اسلام امجد
مسائل کی تہ تک نہ پہنچا گیا مصائب کی فصلیں اگا دی گئیں سہولت سے مہمان کھیلیں شکار درختوں پہ چڑیاں سجا دی گئیں کڑی دھوپ میں دوپہر کی نشاط درختوں کی شاخیں جلا دی گئیں شاعر: ارتضی' نشاط
آؤ سب روشنی کی ڈگر پہ چلیں نفرتوں کے جہنم سے ہو کے پرے باغِ دنیا میں خوشیوں کے مالی بنیں جُگنووں کی طرح اپنے اندر جلیں دوسروں کے لیے روشنی ہم بنیں اور ہر راستے پہ سویرا کریں ہم محبت کریں ہم محبت کریں شاعرہ: ثمینہ تبسم